۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 367243
3 اپریل 2021 - 14:49
سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ

حوزہ/ شب ہائے پیشاور: پیشاور میں سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ نے دس راتوں میں جو مذہب اہلبیت علیہم السلام کی حقانیت کے سلسلہ میں مناظرہ کیا کہ جس کے اختتام پر کچھ لوگوں نے مذہب اہلبیت علیہم السلام کو قبول کیا، اسی مناظرہ کو بعد میں کتابی شکل دی گئی جو آج بھی حق کی جستجو کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے اور کتنے لوگوں نے اسی کتاب کو پڑھ کر مذہب حق قبول کیا۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی 

حوزہ نیوز ایجنسیچودہویں صدی ہجری کے معروف عالم، محقق، خطیب اور واعظ جناب علامہ سید محمد سلطان الواعظین رحمۃ اللّٰہ علیہ ۱۳۱۴ ؁ھ کو تہران میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب ۲۵ ؍واسطوں سے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملتا ہے۔ آپ کے والد ماجد معروف خطیب و واعظ حجۃ الاسلام و المسلمین سید علی اکبر اشرف الواعظین شیرازی رحمۃ اللہ علیہ تھے، جو نہ صرف مومنین بلکہ اپنے زمانے کے علماء و مراجع کرام کے نزدیک بھی محترم تھے جیسے آیت الله العظمیٰ میرزا محمد تقی شیرازی، آیت الله العظمیٰ سید محمدکاظم طباطبایی یزدی صاحب عروۃ الوثقیٰ، آیت الله العظمیٰ آقا سید ابوالحسن اصفہانی و بانی حوزہ علمیہ قم مقدس آیت الله العظمی شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللّٰہ علیہم۔جب جناب اشرف الواعظین رحمۃ اللہ علیہ نے رحلت فرمائی تو آیت الله العظمی شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے حوزہ علمیہ میں اعلان تعطیل کیا اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک میں مجلس ترحیم منعقد کی۔

سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ
علامہ سید محمد سلطان الواعظین رحمۃ اللّٰہ علیہ

جناب علامہ سید محمد موسوی سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ماجد جناب سید علی اکبر اشرف الواعظین شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے اپنی تعلیم کا آغاز کیا، ابتدائی تعلیم تہران میں واقع مدرسہ پامنار میں حاصل کی اور ۱۲ ؍برس کی عمر (۱۳۲۶ ؁ھ) میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ کربلائے معلی تشریف لے گئے، حضرت ابوعبداللہ امام حسین علیہ السلام کے جوار میں قیام کیا اور حصول تعلیم میں مصروف ہو گئے۔ حوزہ علمیہ کربلائے معلی میں آپ نے آیۃالله فاضل مرندی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃالله شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بزرگ علماء سے کسب فیض کیا اور واپس تہران تشریف لے آئے۔

والد ماجد کے انتقال کے بعد ۱۳۵۱ ؁ھ میں قم مقدس تشریف لے گئے اور آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ (بانی حوزہ علمیہ قم)، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد حجت کوہ کمری رحمۃ اللہ علیہ (بانی مدرسہ حجتیہ قم )، آیۃ اللہ العظمی سید محمد تقی خوانساری رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمی محمد علی شاہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض کیا۔

اگرچہ علامہ سید محمد سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک کا زیادہ حصہ تبلیغ و موعظہ میں گذرا لیکن اس کے باوجود آپ نے تحقیق، تالیف و تصنیف کے میدان میں بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ آپ کی مطبوعہ آثار میں ’’شب ہائے پیشاور‘‘،’’ گروہ رستگاران‘‘،’’ صد مقالہ سلطانی‘‘ سر فہرست ہیں اسی طرح کچھ غیر مطبوعہ علمی آثار بھی موجود ہیں۔

سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ
کتاب شب ہائے پیشاور

شب ہائے پیشاور: پیشاور میں سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ نے دس راتوں میں جو مذہب اہلبیت علیہم السلام کی حقانیت کے سلسلہ میں مناظرہ کیا کہ جس کے اختتام پر کچھ لوگوں نے مذہب اہلبیت علیہم السلام کو قبول کیا، اسی مناظرہ کو بعد میں کتابی شکل دی گئی جو آج بھی حق کی جستجو کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے اور کتنے لوگوں نے اسی کتاب کو پڑھ کر مذہب حق قبول کیا۔

واضح رہے پیشاور میں منعقد مناظرہ میں سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب میں ایک اہم شخصیت فیلسوف عصر علامہ سید عدیل اختر زیدی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو بانی تنظیم المکاتب خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ کے استاد و مربی تھے۔

علامہ سید محمد سلطان الواعظین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مختلف ممالک جیسے مصر، سوریہ، لبنان، اردن، فلسطین اور ہندوستان کا سفر کیا، جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو دہلی میں آنجہانی مہاتما گاندھی سے بھی ملاقات ہوئی اور اسی سفر میں پیشاور کا تاریخی مناظرہ بھی انجام پایا۔

علامہ سید محمد سلطان الواعظین رحمۃ اللّٰہ علیہ شریف النفس، بلند ہمت و ارادہ اور عفیف انسان تھے، آپ محبت اہلبیت علیہم السلام سے سرشار تھے اور اسی کی ترویج میں اپنی بابرکت زندگی بسر کی، آپ کو امیرالمومنین علیہ السلام سے خاص عشق تھا, جو آپ کی تمام کتابوں میں عیاں ہے، آپ فرماتے تھے کہ’’ اگر شیعوں کی ساری کتابیں ختم کر دی جائیں تب بھی میں اہل سنت کی کتابوں سے امیرالمومنین علیہ السلام کی بلا فصل ولایت کو ثابت کر دوں گا۔‘‘  منقول ہے کہ زندگی کے آخری ایام میں سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ شدید قلبی بیماری کا شکار تھےاور انہیں علاج کی بےحد ضرورت تھی۔ تہران کےایک صاحب ثروت یہودی کہ جسکی آپ کے فرزند سے آشنائی تھی اس نے ایک بلینک چیک علاج کے لئے بھجوایا جسے آپ نے یہ کہتے ہوئے واپس کر دیا کہ پوری زندگی ذکر حسین علیہ السلام میں گذاری اور اب ایک یہودی سے اپنا علاج کراؤں۔

سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ زندگی کے آخری دس برسوں اس قدر مریض تھے کہ آپ خانہ نشین ہو گئے۔ آخر ۱۷ ؍شعبان المعظم یا ۲۰ ؍شعبان المعظم ۱۳۹۱ ؁ھ کو آپ کا تہران میں انتقال ہوا اور حرم اہلبیت قم مقدس کے قبرستان ابوحسین میں سپرد خاک ہوئے۔

سلطان الواعظین رحمۃ اللہ علیہ
تحریر: مولانا علی ہاشم عابدی 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .